بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نہ صرف ہمارے ماحول پر انتہائی منفی اثرات مرتب کررہی ہے وہی ہماری صحت اور زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اس حوالے سے حال ہی میں کیے گئے ایک سروے میں جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں ان کےمطابق دنیا بھر میں صرف فضائی آلودگی سے سالانہ 33 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد کی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے۔
جرمنی، سائپرس، سعودی عرب اور ہاورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خطرناک اثرات کا مطالعہ کیا اور ان سے ہونے اموات کا بھی جائزہ لیا جس کی بنیاد پرکیے گئے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 33 لاکھ افراد فضائی آلودگی کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ اگر اس کی بہتری کے لیے کام نہ کیا گیا تو 2050 تک یہ تعداد دگنی یعنی 66 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
جرنل نیچر میں شائع ہونے والے اسے مطالعہ کے دوران ہیلتھ کا ڈیٹا اور کمپیوٹر ماڈلز کا استعمال کیا گیا، اس مطالعہ کے بانی پروفیسرجوس لیلویلڈ کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں سے 3 چوتھائی اسٹروک اوردل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوتی ہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال دنیا بھر کی کل اموات میں سے 6 فیصد فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں جب کہ 10 سال قبل اس کی تعداد کہیں کم تھی اور اب اموات کی یہ شرح ایڈز اور ملیریا سے بھی زائد ہے۔
تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ ایشیائی ممالک متاثر ہوتے ہیں جس سے صرف چین میں سب سے زیادہ یعنی 14 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ بھارت میں 6 لاکھ 45 ہزار جب کہ پاکستان میں یہ تعداد ایک لاکھ 10 ہزار تک ہے اس کے علاوہ امریکا میں 54 ہزار لوگ فضائی آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکا، یورپ، روس اور جاپان میں فضائی آلودگی کی بڑی وجہ زراعت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھویں اور دھند ہیں جب کہ دوسری بڑی وجہ گھروں میں لکڑی یا دیگر بائیوفیول سے کھانے کے دوران نکلنے والی حرارت ہے۔
تحقیق کے مطابق زراعت کے دوران کھاد میں استعمال ہونے والی اموینا اور جانوروں کا فضلہ فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہے کیوں کہ کوئلے سے چلنے والے توانائی کے پلانٹس میں امونیا، سلفیٹ کے ساتھ مل کردھویں کے جمے ہوئے ذرات بناتی ہے جو فضا کو زہر آلود کردیتے ہیں اور سانس کے ذریعے یہ زہر ہمارے جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ جوس لیلویلڈ کا کہنا ہے کہ زراعت سے ہونے والی فضائی آلودگی ٹریفک سے ہونے والی آلودگی سے بھی خطرناک ہے تاہم تھوڑی سی کوشش سے اس آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
0 Comments